مجھے تم نیند سے بیدار کرنا

مجھے تم نیند سے بیدار کرنا
سمندر ہے مجھے اک پار کرنا


لبوں پر برف جمتی جا رہی ہے
دلوں کو اب لہو گفتار کرنا


اٹھانا ریت کی دیوار دن بھر
اسے پھر شام کو مسمار کرنا


مناظر چھین لینا روشنی کے
اندھیرے کو کبھی انوار کرنا


ہے جس کا اصل ہی آنکھوں سے اوجھل
اسے کیا دیکھنا دیوار کرنا


ابھی تو مرحلہ ہے امتحاں کا
جلا کر کشتیاں انکار کرنا


دکھانا راہ منزل کی سبھی کو
مجھی کو روکنا تکرار کرنا