مجھے اس شہر کی آب و ہوا اچھی نہیں لگتی

مجھے اس شہر کی آب و ہوا اچھی نہیں لگتی
مسلسل خود فریبی کی قبا اچھی نہیں لگتی


الٰہی یہ مرض کیسا لگا مجھ کو نہ جانے کیوں
دعا اچھی نہیں لگتی دوا اچھی نہیں لگتی


خوشی کی بھی خبر سے اب تو دلچسپی نہیں مجھ کو
کہ اب اے زندگی تجھ سے وفا اچھی نہیں لگتی


جہاں کے سامنے ہم کو نہ تم پہچان پاتے ہو
تمہاری یہ ادا ہم کو ذرا اچھی نہیں لگتی


میں ایسی بزم شور و غل سے نکلا ہوں کہ اب مجھ کو
کوئی آہٹ کسی کی بھی صدا اچھی نہیں لگتی


میں کہنا چاہتا ہوں ان سے لیکن کہہ نہیں پاتا
کہ مجھ کو ان کی خو ان کی انا اچھی نہیں لگتی


دعائیں اور فریادیں فلک سے لوٹ آتی ہیں
خدا کو غالباً میری رضا اچھی نہیں لگتی


تو کیوں کہتا ہے سجدوں میں مجھے رب عمر لمبی دے
مجھے تیرے لبوں پر یہ دعا اچھی نہیں لگتی


کبھی تیری سبھی نادانیوں پر جان دیتے تھے
مگر اب تو تری کوئی خطا اچھی نہیں لگتی


مجھے تم چھوڑ دو اس حال پر یہ حال اچھا ہے
پڑی ہے درد کی خو اب شفا اچھی نہیں لگتی


اجالوں سے تو اب افرنگؔ کیا امید کیجے گا
مگر یہ تیرگی ہم سے خفا اچھی نہیں لگتی