محسن نقوی انقلابی شاعر کیسے بنا?

 

محسن نقوی شعری دنیا کا ایک انتہائی معتبر اور مقبول نام ہے جوکہ 5 مئی 1947ء کو ڈیرہ  غازی خان میں سید چراغ حسین شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے گھر والوں نے ان کا نام غلام عباس رکھا تھا۔ ان کے والد محنت مزدوری کرتے تھے.معروف شاعر پروفیسر اسلم انصاری غلام عباس کے استاد تھے۔غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا  باقاعدہ آغاز کیا اور اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ محسن نقوی نے  ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی، عبد الحمید عدم اور کیف انصاری جیسےمعروف غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی ۔

اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصر شعراء کواپنی طرف متوجہ کیا۔محسن نقوی نے  شاعری میں  باقاعدہ اصلاح  کسی سےنہیں لی تاہم علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور مانتے تھے۔محسن نقوی کو  ملتان آنے کے بعد  انواراحمد، عبدالرئو ف شیخ، فخر بلوچ ، صلاح الدین حیدر اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔ یہ ان سب  دوستوں کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی،ثقافتی وسیاسی زندگی  دیگر شہروں کی نسبت زیادہ متحرک تھی۔پھر چشم ِ فلک نے دیکھا کہ جلد ہی گھنگھریالے بالوں والا اور قہقہے بکھیرنے والا  محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان  اور لازمی جزوبن گیا۔

محسن نقوی ہفت روزہ’’ہلال‘‘روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے لیے باقاعدہ ہفتہ وار قطعات اور کالم بھی لکھتے رہے ہیں ۔1970ء میں پاکستان میں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی۔ترقی پسند سوچ کے حامل دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور یہ تعلق تادمِ مرگ قائم و دائم رہا۔ محسن نقوی نے ’’بندِ قبا‘‘کے نام سے اپنے شعری سفر کی ابتدا اسی زمانے میں کی۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ عذابِ دید ، خیمہ ٔ جاں ، برگِ صحرا ، موجِ ادراک ، طُلوعِ اشک ، فُراتِ فکر ، ریزۂ حرف ، رخت ِ شب ، رِدائے خواب اور حق ایلیا ان کے دیگر شعری مجموعے ہیں ۔ محسن نقوی کو اقبالِ ثانی کے خطاب سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔

محسن نقوی 1980ء میں لاہورآگئے۔لاہور کے ادبی مراکز میں انہوں نے ا پنی علمی وادبی صلاحیتوں کا اظہار کھل کر کیا۔محسن نقوی کی غزلیں اور نظمیں مقبول ِ عام ہوئیں اور وہ نئی نسل کے نمائندہ شاعر کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔اُس دور میں احمد ندیم قاسمی سے لیکر شہزاد احمد تک کئی معروف اساتذہ شعرا موجود تھے۔محسن نقوی نے ان سب کی موجودگی میں اپنے منفرد اندازاورجداگانہ لب و لہجے کی بدولت اپنی پہچان بنائی۔غزل کے علاوہ نظم اور مرثیے میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی کئی نظمیں آج بھی مقبول  عام ہیں۔ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَورِ حکومت میں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا۔ محسن نقوی کو 15جنوری 1996ء میں اقبال ٹاؤ ن لاہور میں قتل کر دیا گیا۔محبت اور امن کا  داعی نفرت  وکدورت اور دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد اپنے ہی ایک شعر پر پورا اتر گیا۔

ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں

ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے

 محسن  عصری شعورو آگاہی  کے ساتھ شعر کہتے تھے ۔ ان کی شاعری کا ایک اور اہم موضوع معاشرتی اُتار چڑھاؤ بھی تھا۔محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ واقعہ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو ملک بھر میں مقبولیت حاصل ہے ۔ اسی سبب اُن کی شاعری کوہر جگہ قبولیت عام حاصل ہے۔محسن نقوی نے اپنے شعری مجموعہ ’’ردائے خواب‘‘ کے دیباچے میں اپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیاہے ۔ بقول محسن نقوی:

 

’’زندگی اتنی مختصر سی ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی میسر نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں‘‘۔

 

محسن کی شاعری میں صرف عشق و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی  جو اپنے لوگوں کی  بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازارِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘بھی لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈبھی وصول کیا ۔

محسن نقوی نے شعرو ادب سے جُڑے رہ کر اُردو غزل میں ایک جداگانہ پہچان بنائی ۔انہوں نے فنی زندگی میں بامعنی شاعری لکھی اور اس کی بدولت خوب داد و تحسین حاصل کی۔ محسن کو اپنی جس  شاعری کے ذریعے سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ واقعات کربلا کے گرد گھومتی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں شہرت  دلوائی ۔منفرد اُسلوب کے حامل محسن نقوی اپنی شاعری میں اکثر و بیشتر سیاست اور مذہب پر بھی بات کرتے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور کارکردگی پر کھل کر تنقید کرتےتھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک خاص وجہ ان کی شاعری میں محبت کے معاملات پر ڈٹے رہنے کے بجائے انفرادیت پسند ہونا تھا۔ وہ دراصل  ان منفرد شعرا کی قبیل  میں سے ایک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔

محسن نقوی کے بہترین اشعار

 

جب بھی مقتل میں کوئی چاند ہوا زینتِ دار

اے فلک بخت مسافر ہمیں تُو یاد آیا

 

محسنؔ جب بھی چوٹ نئی کھا لیتا ہوں!

دل کو یاد آتے ہیں زخم پُرانے کیوں

 

محسنؔ اُس نے دل کا شہر اجاڑ دیا

میں سمجھا تھا بخت سنورتا جاتا ہے

 

یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تیری آنکھیں

 

محسنؔ تکلفات کی غارت گری نہ پوچھ

مجھ کو غمِ وفا تجھے فکرِ معاش ہے

 

غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں

سرِدار بھی مسکرانا پڑا

 

آہٹ سنی ہوا کی تو محسنؔ نے خوف سے

جلتا ہوا دِیا تہِ داماں چھپا لیا

 

رویا ہے اس قدر کہ اب آنکھیں گلاب ہیں

وہ شخص روٹھ کر بھی نشیلا دکھائی دے

 

مشکل کہاں تھے ترکِ محبت کے مرحلے

اے دل مگر سوال تری زندگی کا تھا 

 

آنکھوں میں ایک اشک ہے باقی ہوائے شام

یہ آخری دِیا ہے اِسے مت بجھائیو 

متعلقہ عنوانات