محبتوں کا جو سر پر وبال رکھا ہے
محبتوں کا جو سر پر وبال رکھا ہے
فتور عشق ہے اور ہم نے پال رکھا ہے
یہ انتخاب جو ہم نے کیا ہے جینے کا
فراق چن لیا ہے اور وصال رکھا ہے
کسی بھی روز ملو اور اداسیاں لے لو
ہم ایسے لوگ ہیں سب پر ملال رکھا ہے
خزاں کے پھول سنجوئے کتاب میں رکھے
فصیل غم سے یوں رشتہ بحال رکھا ہے
وہ آخرش مجھے خوابوں میں دیکھنے آیا
مرے گلے کا بھی کیسا خیال رکھا ہے
یہ دور وہ ہے کہ دل میں کوئی رکھے نہ رکھے
نظر میں سب نے مجھے بہر حال رکھا ہے
میں لا جواب ہوئی یوں کچھ اس کی باتوں سے
مرے سوال پہ اس نے سوال رکھا ہے
غزل کے شعر مرے کب کے مر گئے ہوتے
سماعتوں نے انہیں دیکھ بھال رکھا ہے