محبت سے تری یادیں جگا کر سو رہا ہوں
محبت سے تری یادیں جگا کر سو رہا ہوں
میں آدھی رات کو خوشبو لگا کر سو رہا ہوں
سنا ہے جب سے تو نے رات آنکھوں میں بسر کی
میں بستر کی جگہ کانٹے بچھا کر سو رہا ہوں
میں دریا ہوں مری گہرائی پوشیدہ ہے مجھ میں
گرفت خاک سے دامن چھڑا کر سو رہا ہوں
وہ گھر میں ہے مگر کہتا ہے کوئی گھر نہیں ہے
تو میں بھی آج ویرانے میں جا کر سو رہا ہوں
نہیں ہے دسترس میں اب زمیں کا کوئی ٹکڑا
سو میں کاغذ پہ اپنا گھر بنا کر سو رہا ہوں
وہ خواہش جس کو سینے سے ابھی لپٹا رہا تھا
اسی کو اپنے پہلو سے ہٹا کر سو رہا ہوں