محبت میں مرے سر پر یہی الزام لازم تھا
محبت میں مرے سر پر یہی الزام لازم تھا
زمانے بھر میں ہو جانا مرا بدنام لازم تھا
سناؤں تشنگی کا حال کیا زندہ ہوں میں اب تک
مرے ہونٹوں پہ ہر لمحہ تمہارا نام لازم تھا
نچوڑا ہے لہو اپنا لکھے تب شعر ہیں میں نے
کہیں پر وزن لازم تھا کہیں الہام لازم تھا
ہزاروں خواہشوں کا گھر خریدے کون اب اس کو
بھرے بازار میں دل کا پرانا دام لازم تھا
نشہ چڑھنا بھی لازم تھا بھری محفل میں اے لوگو
پلا دینا وہ ساقی کا مجھے بھی جام لازم تھا
بہت عرصہ ہوا اب تو جہاں سے شوخؔ کو گزرے
بہت گستاخ تھا اس کا یہی انجام لازم تھا