جب سماتی ہے رات اندھیرے میں

جب سماتی ہے رات اندھیرے میں
ان کی ہوتی ہے بات اندھیرے میں


ان کے آسیب سے بچے رہنا
جو لگاتے ہیں گھات اندھیرے میں


وقت نے پیچھے مجھ کو چھوڑ دیا
رہ گئی میری ذات اندھیرے میں


میری ہر بات جھوٹ پر مبنی
جس طرح تیری بات اندھیرے میں


سب کے سب ہی سیاہ ہو جائیں
رنگ رکھ دو جو سات اندھیرے میں


زندگی کیا ہے اک اندھیرا ہے
ہو نہ جائے وفات اندھیرے میں


جان کیا ہوگی میرے لفظوں میں
ہے قلم اور دوات اندھیرے میں


کیا اجالا بھی دے چراغ مجھے
شوخؔ جب ہے حیات اندھیرے میں