محبت کا آخری سائبان
ریت بھری ہوائیں چیرتی ہیں دل کے زخموں کو
ٹوٹ جاتی ہیں زنجیریں سانسوں کی
کس قدر برہم ہے یہ غصیلی ہوا
اے میری محبت کے آخری سائبان
مجھے لے چل کسی ایسے ساحل سمندر پر
جہاں میں دل کا غبار دھو سکوں
سفاک منظر کی دلدل آنکھوں کے آئینے سے اتر جائے
میں بھاگتی رہوں دیر تک
دور تک یہاں تک کہ منہدم ہوتے شہر کی دسترس سے نکل جاؤں
سبھی یادوں اور وعدوں کو کچلتے ہوئے
دل اور ذہن کی آلودگی میں لتھڑے ہوئے شہر سے دور
ایک سبز جنگل ہے
جہاں امن اور محبت کے گیت گنگناتی ہوئی ہوا
مجھے بلا رہی ہے
میری روح کو آسودگی کا ریشم اوڑھانے کے لیے