مرے دکھ درد ہر اک آنکھ سے اوجھل پڑے تھے
مرے دکھ درد ہر اک آنکھ سے اوجھل پڑے تھے
شکر صد شکر کہ بس روح پہ ہی بل پڑے تھے
کسی مقصد سے ترے پاس نہیں آئے ہیں
کہیں جانا ہی تھا سو تیری طرف چل پڑے تھے
ایک میں ہی نہیں شب چھت پہ بسر کرتا تھا
چاند کے پیچھے کئی اور بھی پاگل پڑے تھے
کیسا نظارا تھا کہساروں کی شہزادی کا
بام پر وہ کھڑی تھی فرش پہ بادل پڑے تھے
جلد بازوں نے بچھڑنے میں بڑی عجلت کی
ایک اک مسئلے کے ورنہ کئی حل پڑے تھے
خود سے خود تک کا سفر سہل نہیں تھا اتنا
راستے میں کئی دریا کئی جنگل پڑے تھے
عجز کے اشک بہاتے ہوئے شب سو گیا میں
صبح اٹھا تو مرے کام مکمل پڑے تھے
دھیان تیاری کا آیا ہی نہیں ہم کو عقیلؔ
سفر عشق تھا بے رخت سفر چل پڑے تھے