مائنڈ سائنس سیریز 1:مائنڈ سائنس کیا ہے؟ ایک تعارف

آپ نے ٹیلی پیتھی، ہپنا ٹزم ، مسمریزم اور ٹیلی کائنیسس وغیرہ کا نام تو سنا ہو گا۔یہ سب پرانی تکنیکیں ہیں۔ اس وقت انھیں ماورائی علوم قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم اب اس قسم کے تمام ذہنی علوم کو "مائنڈ سائنس" کا نام دے دیا گیا ہےاور انھیں باقاعدہ ایک علم کی شکل دے دی گئی ہے۔اب ان علوم میں نیورو لنگوئسٹک پروگرامنگ(NLP)، سلوا مائنڈ کنٹرول میتھڈ،  ایکسٹرا سنسری پرسپشن (ESP)،ایموشنل ریلیزنگ میتھڈ (سیڈونا) اور کئی اقسام کے نئے علوم شامل کر دئیے گئے ہیں۔مائنڈ سائنس کے ذریعے ڈپریشن اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی اقسام کے ذہنی اور جذباتی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔

نوٹ: اس سلسلہ مضامین کے ذریعے ہم آپ کے سامنے مائنڈ سائنس کے قدیم اور جدید طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔ہر اتوار کو مائنڈ سائنس سیریز کی قسط شائع ہوگی۔اس سلسلے کی پہلی قسط ملاحظہ کیجیے۔

اس موضوع پر برادرم سعید عباس سعید کا مضمون "الفا لہریں: جو دماغ سے اٹھیں اور دل تک پہنچیں" ملاحظہ فرمائیں۔

مائنڈ سائنس کی بالکل آسان اور سادہ تعریف کی جائے تو ہم کچھ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ " شعور اور لاشعور کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے کا نام مائند سائنس ہے۔ چنانچہ ہم سب سے پہلے شعور اور لا شعور کی مختصر تعریف کرتے ہیں۔

شعور  کیا ہے؟

            انسانی زندگی اس کے برتائو یعنی عمل سے عبارت ہے اور عمل کا آغاز اس کے خیال یا سوچ سے ہوتا ہے۔ ہمارا خیال ہی ہماری رہنمائی اور مدد کرتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو کوئی شکل دینے کے لیے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ جب ہم کوئی اہم فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ سوچنا شروع کر تا ہے کہ اس فیصلے کے کیا مثبت یا منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اسی فیصلے کے زیر اثر ہوتا ہے۔ہماری سوچ کا یہ انداز ہمارے شعور (Conscious) سے آتا ہے۔ ہم جس انداز سے اپنی زندگی میں دیکھتے اور اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اسی انداز سے یہ ہمیں حکم دیتا ہے۔ پھر اسی کے حکم کے مطابق ہم فیصلہ کرتے اور اس فیصلے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ہم جیسے ماحول یا واقعے سے گزرتے ہیں، ہمارا شعوری ذہن اسی کے مطابق ہمارے دماغ کو کنٹرول کرتا ہے۔

لا شعور کسے کہتے ہیں؟

            آپ صبح گھر سے دفتر کے لیے نکلتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کئی طرح کے خیالات گردش کرر ہے ہوتے ہیں۔ راستے میں کئی اقسام کے واقعات کو وقع پذیر ہوتے دیکھتے ہیں، اپنی گاڑی کو بھی کنٹرول کرتے ہیں،ٹریفک کے قوانین کا خیال بھی رکھتے ہیں اور ان سب کے باوجود آپ بآسانی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس دوران آپ کی تمام تر شعوری توجہ مختلف واقعات پر مرکوز رہتی ہے لیکن آپ کے لاشعور میں بس ایک ہی بات ہوتی ہے کہ آپ نے وقت پر دفتر پہنچنا ہے۔

            ہمارے ذہن میں ہر روز کم از کم ساٹھ ہزار نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن ہم ان میں سے محض چند ایک کو ہی قابل توجہ سمجھتے ہیں اور ان پر غور کرتے ہیں۔ باقی تمام خیالات لا شعور میں ہی محفوظ رہ جاتے ہیں۔

لاشعور کا ڈیٹا سٹوریج                                                         

            کیا آپ کو یاد ہے کہ یکم فروری 2020 کو آپ نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے؟ یقینا یاد نہیں ہو گا لیکن یقین کریں کہ یہ بات آپ کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں ضرور محفوظ ہے۔ ایسی لاکھوں کروڑوں یادداشتیں ہیں جو آپ کے لاشعور میں محفوظ ہیں لیکن وہ شعور کی سطح تک نہیں پہنچ پاتیں۔

            ا س لمحے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، تو کیا آپ کو پنکھے کی ہوا اپنے جسم سے ٹکراتے محسوس ہو رہی ہے؟ پہلے تو نہیں لیکن اب یقینا محسوس ہو رہی ہو گی  کیونکہ اب آپ نے اس پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔آپ جس کرسی پر بیٹھے ہیں، کیا اس کی نشست کی سختی آپ کو محسوس ہو رہی ہے؟ یقینا اب ضرور محسوس ہو رہی ہو گی۔  

            یہ تمام احساسات یا معلومات جو صرف غور کرنے پر آپ کو محسوس ہوتی ہیں، آپ کا لاشعور انھیں ہر وقت قبول کر رہا ہوتا ہے اور محفوظ بھی کر رہا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی توجہ ان کی طرف نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے یہ آپ کو محسوس نہیں ہوتیں۔

لاشعور کے کام کرنے کا طریقہ کار

            آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ نے موٹر سائیکل یا کار چلانی سیکھی تھی تو شروع کے دنوں میں آپ کو ہر عمل (یعنی کلچ، گئیر، ایکسیلیٹر وغیرہ) پر شعوری طور پر فوکس کرنا پڑتا تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد کیا ہوا؟ یہ تمام عوامل آپ کے لاشعور میں محفوظ ہو گئے اور اب یہ تمام سرگرمیاں آپ کا دماغ خود بخود سرانجام دےلیتا ہے اور اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا۔ یہ سب خود بخود کیسے ہو جاتا ہے؟

            ہم جب بھی کچھ نیا سیکھتے ہیں تو دماغ کے چھوٹے چھوٹے عصبی خلیات(نیورانز)  آپس میں کچھ نئے روابط (کنکشن) بناتے ہیں۔ کسی بھی عمل کو بار بار سرانجام دینے سے یہ کنکشن مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر پختہ ہو کرہماری عادت بن جاتے ہیں۔

            لا شعور کا یہ میکانزم صرف گاڑی سیکھنے تک محدود نہیں ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں لا شعور کا یہی طریقہ کار ہے۔ ہم جو کچھ سیکھتے، یاد کرتے، تجربہ کرتے، محسوس کرتے، تصور کرتے اور سوچتے ہیں، اسی کے مطابق ہمارے عصبی خلیے  مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں پوری زندگی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ یعنی ہمارا دماغ ہر وقت "زیر تعمیر" حالت میں ہوتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنا ذہن بدلتے ہیں تو ہمارا دماغ بھی بدل جاتا ہے اور اسی طرح جب ہمارا ذہن بدلتا ہے تو ہمارے ذہن میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔

            اب اسی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنے ذہن کو کسی مطلوبہ ہدف پر فوکس کرتے ہیں اور اپنے جسم کو مسلسل اس سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے عمل پر لگاتے ہیں تو ہم وہی ہدف حاصل کر لیتے ہیں، یعنی کامیاب ہو جاتے ہیں۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا جسم نئے تجربات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار کرتا رہتا ہے۔  

خیالات کے مادی اثرات

            نیورو سائنس پر ہونے والی جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم محض اپنی سوچ کو بدل کر اپنے دماغ کو بدل سکتے ہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں، اسی کام کا تصور کرتے ہوئے اسے ذہن میں دہرایاجائے یعنی مینٹل ریہرسل کی جائے۔

            ایک تحقیق میں شریک لوگوں نے اپنے ہاتھ کی انگلی کو حرکت دینے کا تصور پانچ دن تک روزانہ دو گھنٹے کیا تو ان کے دماغ میں وہ تبدیلی ہوئی جو باقاعدہ حقیقتا انگلی کو حرکت دینے والوں کے دماغ میں ہوئی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب ہم واقعتہََ کسی کام پر فوکس کرتے ہیں اور انتہائی ذہنی یکسوئی رکھتے ہیں تو ہمارا دماغ، ذہن کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا کے ماحول میں فرق نہیں کر پاتا۔

            اس قسم کی شدید کیفیت ہمارے ساتھ خواب کے دوران ہوتی ہے کہ جب ہم نیند کےدوران کچھ دیکھتے ہیں تو ہمارے جسم میں اسی کے مطابق تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ہمارا جسم دماغ میں موجود تصورات کو سچ سمجھ کر اسی کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

            روسی سائنسدانوں نے جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں کا موازنہ کرنے کے لیے کھلاڑیوں کے چار گروپ بنائے۔ پہلے گروپ کو 100 فیصد جسمانی سرگرمی کرائی گئی۔ دوسرے گروپ کو 75 فیصد جسمانی سرگرمی جبکہ 25 فیصد ذہنی سرگرمی کرائی گئی۔  تیسرے گروپ کو 50 فیصد جسمانی جبکہ 50 فیصد ذہنی سرگرمی کرائی گئی اور چوتھے گروپ کو 25 فیصد جسمانی جبکہ 75 فیصد ذہنی سرگرمی کرائی گئی۔ نتائج کے مطابق، چوتھے گروپ نے سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم پہلے سے کسی ماحول یا تجربے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں تو ہم نئے ماحول یا تجربے سے جلد مانوس ہوجائیں گے۔

خیالات کے ذریعے مادی اجسام میں حرکت پیدا کرنے کاآسان تجربہ

            کہتے ہیں کہ ایک چھٹانک کا عمل، ایک من تقریر پر بھاری ہوتا ہے۔ مائنڈ سائنس کے بارے میں باتیں تو سبھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم آپ کے لیے ایک آسان اور گھریلو تجربہ پیش کر رہے ہیں۔ جس سے آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے خیالات واقعی باہر کی مادی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔  

            یہ تجربہ دراصل آپ کی ذہنی یکسوئی کی پیمائش کا تجربہ ہے۔ اگر آپ ذہنی طور پر یکسو ہیں اور اپنے خیالات کو قابو رکھ سکتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آپ کے خیال کی قوت، مادی دنیا میں تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔ بر سبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود اس تجربے کو آزمایا ہے۔

            تجربے کے اجزاء بالکل سادہ ہیں۔ لوہے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا(یا انگوٹھی وغیرہ ) لیں اور اس کے ساتھ  ڈیڑھ دوفٹ کا  ایک دھاگا باندھ لیں۔اس دھاگے کو ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑ کر   کرسی پر اس طرح بیٹھ جائیں آپ کے کی کہنی آپ کی ران یا میز کی سطح پر ہو اورلوہے کا وہ ٹکڑا دھاگے کی مدد سے ہوا میں معلق ہو۔

            کچھ دیر انتظار کریں تاکہ وہ ٹکڑا ساکن ہو جائے۔ اب آپ اس ٹکڑے پر نظریں جمائے ہوئے، اپنے ذہن میں سوچیں کہ یہ ٹکڑ ا (کسی پنڈولم کی طرح )دائیں بائیں حرکت  کر رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آپ مشاہدہ کریں گے کہ وہ ٹکڑا دھاگے سمیت کسی پنڈولم کی طرح جھولنا شروع کر دے گا۔ حالانکہ آپ کا بازو اور ہاتھ بالکل ساکت ہو گا۔

            اب کچھ دیر بعد، ذہن میں ہی سوچیں کہ وہ ٹکڑا آگے پیچھے حرکت کرے۔ ایک لمحے کے بعد یہی حرکت شروع ہو جائے گی۔ کچھ دیر بعد اب یہ سوچیں کہ ٹکڑا ایک دائرے کی شکل میں بائین سے دائیں (کلاک وائز) گھومنے لگ جائے۔ آپ حیران ہو جائیں گے وہ ٹکڑا خاصے بڑے دائرے میں گھومنے لگ جائے گا۔ اب کچھ دیر بعد اسے دائیں سے بائیں ( اینٹی کلاک وائز) گھومنے کے لیے کہیں تو اس ٹکڑے کی حرکت آپ کی حسب منشا تبدیل ہو جائے گی۔

            اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو حرکت دئیے بغیر، اس ٹکڑے نے کیسے حرکت شروع کر دی؟ محض خیالات کے ذریعے چیزوں کو حرکت دینے کا علم مائڈ سائنس کی زبان میں " ٹیلی کائنیسس" (Telekinesis) کہلاتا ہے۔ یکسوئی کی مسلسل مشقوں کے نتیجے میں خیال کی قوت کو اس حد تک طاقتور کیا جا سکتا ہے کہ محض خیال کی قوت سے کاغذ کی پھرکی کو گھمایا جا سکتا ہے۔

            اس مشق کے عملی مظاہرے کے لیے امریکہ میں مقیم "متبادل طریقہ علاج " کے ماہر اور مائنڈ سائنس تھراپسٹ ڈاکٹر دیپک چوپڑا کی ویڈیو ملاحظہ کریں۔

آئندہ قسط میں ہم آپ کے سامنے مائنڈ سائنس کی قدیم اور جدید تکنیکوں کا تفصیلی تعارف پیش کریں گے۔

دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

متعلقہ عنوانات