مفتاح اسماعیل کی چھٹی اور ڈار صاحب کی واپسی: دونوں ماہرین معیشت آپس میں کیا اختلاف رکھتے ہیں؟

"میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں میں نے زبانی طور پر بطور وزیر خزانہ استعفیٰ  دے دیا ہے۔ میں پاکستان پہنچ کر باقاعدہ طور پر استعفیٰ  دے دوں گا۔"

یہ تھا مفتاح صاحب کی جانب سی اپنی چھٹی کا اعلان۔ ٹوئیٹر پر اس اعلان کے جواب میں نون لیگ کے چیدہ چیدہ رہنما جیسا کہ سعد رفیق، مریم نواز وغیرہ مفتاح صاحب کی تعریف کرتے تو نظر آئے لیکن  یہ ایک کھلا راز ہے کہ  نون لیگ کی قیادت مفتاح صاحب سے ناخوش ہے۔ مفتاح صاحب پاکستان کی معیشت کے لیے وہ ڈاکٹر ثابت ہوئے جو سخت کڑوی گولیاں دے رہے  تھے۔  ان کے اقدامات سے جہاں عوام نے مہنگائی بھگتی، وہیں  نون لیگ نے بھی بہت سا سیاسی سرمایہ کھویا۔ پنجاب  کی بیس سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  ایک کامیابی جس کا سہرا مفتاح اسماعیل صاحب کے سر سجایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے سخت معاشی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔ لیکن یہ بات اس وقت قابل سوال بن جاتی ہے جب پاکستان کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف سے پروگرام کے بعد بھی سات آٹھ ارب ڈالر کے آگے  پیچھے گھومتے نظر آتے ہیں، بڑھتے نہیں۔ اوپر سے پاکستان  کا روپیہ ہے جو سنبھلنے میں نہیں آ رہا۔ آج جب  چھبیس ستمبر کو یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو پاکستان کا روپیہ ڈالر کے عوض 240 روپے کا ہو چکا ہے۔ یہ ایک طرف تو مہنگائی کے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور دوسری طرف عوام کی مشکلات میں اضافے کا منہ بولتا ثبوت۔

ڈار صاحب اور مفتاح اسماعیل صاحب میں اختلافات:

بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں معاشی ڈاکٹروں میں مریض کے علاج کے طریقہ کار میں اختلاف ہے۔ اس میں یقیناً پیشہ ور رقابت کا عنصر بھی ہو سکتا ہے، کہ ایک پارٹی میں دونوں ماہر معیشت ہیں اور دونوں اپنے فلسفے کے مطابق معیشت دوڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈار صاحب کی مفتاح صاحب کی پالیسیوں پر کھلی تنقید اور مفتاح  صاحب کا اپنی پالیسیوں پر اصرار اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ دونوں ماہر الگ الگ طریقہ کار سے معیشت چلانا چاہ رہے ہیں۔ اس بات کا کھلا اظہار اس وقت سامنے آیا جب ڈار صاحب نے اسی آئی ایم ایف  کے پروگرام سے نکل کر نیا آئی ایم ایف پروگرام طے کرنے کی تجویز پیش کی لیکن مفتاح اسماعیل  نے اسی کو جاری رکھنا بہتر جانا۔ بنیادی طور پر پر ڈار صاحب کہہ رہے تھے کہ عمران خان کے دور کے ماہرین نے آئی ایم ایف سے جن شرائط پر پروگرام کیا ہے،  اس سے عوام پر سخت دباؤ آئے گا۔مہنگائی بھی ہو گی اور  معیشت بھی سست روی کا شکار ہوگی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم اس پروگرام سے نکل جائیں اور نئے پروگرام کی بات کریں۔ دوسری طرف مفتاح اسماعیل نقطہ نظر رکھتے تھے کہ پاکستان میں اس وقت ہنگامی صورتحال ہے اور ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہمیں جلد سے جلد آئی ایم ایف سے قرضہ چاہیے تاکہ ہم دیگر عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرضہ حاصل کر کے گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر کو سنبھال سکیں۔ نہیں تو خدا نخواستہ حالات دگر گوں ہو سکتے ہیں، کیونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے بعد ہمیں پینتیس ارب ڈالر سے زائد چاہییں تاکہ اگلے سال تک ہم اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کو ممکن بنا سکیں۔ ایسا جلد سے جلد آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کیے بغیر ناممکن ہے۔ ڈار صاحب جو نئے پروگرام کی تجویز دے رہے ہیں جانے ہم اسے حقیقت کا روپ دے پائیں نہ دے پائیں۔ نئے سرے سے مذاکرات میں کتنا  وقت لگ جائے ہم نہیں جانتے۔ پھر نئے مذاکرات میں آئی ایم ایف کتنی مزید سخت شرائط سے سامنے آئے یہ بھی نہیں جانتے۔ اوپر سے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ہم باقی بھی رہتے ہیں یا انتخابات میں جانا پڑتا ہے۔ اتنی بے یقین صورتحال میں جو پروگرام چل رہا ہے اسی کو چلنے دینا چاہیے۔

پھر ڈار صاحب اس وقت پیٹرول کو مہنگا کرنے کی بجائے سیاسی طریقے سے مسئلے کے حل میں دلچسپی رکھتے بھی نظر آئے۔ لیکن مفتاح اسماعیل اس پر بھی ڈار سے اختلاف کرتے ہی نظر آئے۔ پر بات تو اصل یہ تھی کہ دونوں ماہرین  کے اختلافات کا نقصان پاکستان کو ہی ہوا اور پاکستانی عوام اس کی قیمت ادا کرتے نظر آئے۔ بے چینی کی وجہ سے روپیہ پھسلا اور 189 سے سرکتا ہوا  فی ڈالر239 تک جا پہنچا۔ ریزورز بھی گرے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی قدر تاخیر کا شکار ہوئے۔ یہ اختلاف بجٹ میں اسی عوام پر جو پہلے سے ٹیکس دے رہی ہے، پر ٹیکس اضافے پر بھی نظر آیا۔ مفتاح اسماعیل مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ ہمیں پاکستان کو معاشی ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اور معیشت کو واپس پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے سخت اقدامات لینا ہوں گے۔ دوسری طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈار صاحب یہ انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ عوام کے لیے آسانی نکالنے کے خواہاں تھے۔

ڈار صاحب  کی باتیں نون لیگ خصوصاً نواز شریف صاحب کو زیادہ بھا رہی تھیں ۔ کیونکہ ان کا ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہو رہا تھا۔  ڈار صاحب کی نواز شریف سے قربت کے باعث خبریں گرم تھیں کہ مفتاح اب گئے کہ تب گئے۔ اس کا ادراک خود مفتاح اسماعیل کو بھی تھا۔ لیکن دوسری طرف پاکستان کی عدالتوں نے ڈار صاحب کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔ ان پر 2017 سے آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے، جس میں وہ نیب کو مطلوب ہیں۔ اسی وارنٹ گرفتاری کے باعث وہ اب تک بطور سینیٹر حلف بھی نہیں اٹھا سکے اور برطانیہ ہی مقیم ہیں۔ لیکن اب جبکہ آٹھ اکتوبر تک عدالت نے ڈار صاحب  کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے انہیں نیب کے سامنے پیش ہو کر اپنے الزامات کا دفاع کرنے کا موقع دیا ہے، تو وہ واپس آ رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا استعفیٰ بھی سامنے آگیا ہے۔ ڈار صاحب کا پورٹ فولیو دیکھیں تو وہ ایک منجھے ہوئے ماہر معیشت ہیں، جن پر متحدہ عرب امارات کی حکومت تک  بھروسہ کر چکی ہے۔ انہیں 2013 میں پیدا ہونے والے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے پاکستان کو نکالنے کا بھی تجربہ ہے۔ لیکن دیگر ماہرین  انہیں مصنوعی طور پر اسٹیٹ بینک کے ڈالر خرچ کر کے، ڈالر کی قیمت کو روپے کے عوض  برقرار رکھنے کی پالیسی پر سخت ہدف تنقید بھی بناتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ڈار صاحب پاکستان کو بحران سے نکال کر نون لیگ کا سیاسی مستقبل روشن کر پائیں گے یا راوی میں ابھی مزید جوار بھاٹے پھوٹنا باقی ہیں؟

متعلقہ عنوانات