مائیکل اینجلو کی ایک رات
آدم کی پہلی آواز
ان پتھروں میں اب بھی
چمک رہی ہے جنہیں پہلی
بار میں نے اپنی اپنی زمیں
میں دیکھا میری سر زمیں
ان برفاب جسموں سے آباد ہے
جن جسموں میں خوبصورت
آنکھیں نئی جنت کی سفیر ہیں فیڈیاس
میں تجھے
ایک نئے انسان کا چہرا
دکھاتا ہوں اس چہرے پر
انسانیت کا گریس ہے اور
عظمت آدم کی وہ تصویر ہے
جو ہمیشہ میری زمین پر چمکتی
رہے گی میں آدم کو
فطرت سے عظیم سمجھتا ہوں
میری راتوں میں پتھر چمکتے
میں اور میرے دن
مرمر کی راتوں سے زیادہ روشن ہیں
یہ دیکھ یہ آدم ہے جس پر روشنی
داہنے کندھے سے نیچے گر رہی ہے
روشندان کا دروازہ بند نہ کرو
ابھی آدم کو اپنی ہی زمین کے لئے اس
روشنی کی ضرورت ہے اور میری زمین
پر اب بھی وہ سایہ موجود ہے جس
سائے میں ان گنت راتیں ان گنت
رنگ اور ان گنت چہرے موجود ہیں
ان اندھیرے میں رفائیل ہی نہیں
روڈن اور ہنری مور بھی گھوم رہے ہیں
اپنے اپنے مجسموں کے ساتھ مگر میں
اب ایک نئے آدم کا مجسمہ بناؤں گا
جس آدم کے چہرے پر اپنی زمیں کی مٹی کے
ساتھ اپنی زمین کا سورج بھی چمکے گا
کاش میں اس نئے سورج کا
مجسمہ بنا سکوں