میرے سخن میں تبھی فلسفہ زیادہ ہے

میرے سخن میں تبھی فلسفہ زیادہ ہے
کہ میں نے لکھا بہت کم پڑھا زیادہ ہے


اس ایک رنگ کی تھی جستجو زمانے کو
وہ ایک رنگ جو مجھ پہ کھلا زیادہ ہے


تم ہی بتاؤ ابھی کیسے چھوڑ دوں اس کو
ابھی وہ مجھ میں ذرا مبتلا زیادہ ہے


یہ ایک پل کی وفا مدتوں کا رونا ہے
ذرا سے جرم کی اتنی سزا زیادہ ہے


میں اپنے آپ میں ہوں ہی نہیں سو اب مجھ میں
کچھ ایک دن سے کوئی دوسرا زیادہ ہے