میرا سارا بدن راکھ ہو بھی چکا میں نے دل کو بچایا ہے تیرے لیے

میرا سارا بدن راکھ ہو بھی چکا میں نے دل کو بچایا ہے تیرے لیے
ٹوٹے پھوٹے سے دیوار و در ہیں سبھی پھر بھی گھر کو سجایا ہے تیرے لیے


کتنی محنت ہوئی خوں پسینہ ہوا جسم مٹی ہوا رنگ میلا ہوا
خود تو جلتا رہا دوزخوں میں مگر گھر کو جنت بنایا ہے تیرے لیے


تیری ہر بات تھی تلخیوں سے بھری تیرا لہجہ سدا مجھ کو ڈستا رہا
پھر بھی تھک ہار کر اپنا دامن مار کر میں نے خود کو منایا ہے تیرے لیے


میرے ہر سانس میں حکم شامل ترا میں ہلا بھی تو مرضی سے تیری ہلا
تو نے جو کچھ بھی چاہا وہی ہو گیا میں نے خود کو گنوایا ہے تیرے لیے


لوگ کہتے ہیں بیچارے فاروقؔ کی موت ہو بھی چکی زندگی کے لیے
اپنی ہستی مٹائی ہے تیرے لیے اس کو جینا بھی آیا ہے تیرے لیے