لوگ کہتے ہیں یہاں ایک حسیں رہتا تھا

لوگ کہتے ہیں یہاں ایک حسیں رہتا تھا
سر آئینہ کوئی ماہ جبیں رہتا تھا


وہ بھی کیا دن تھے کہ بر دوش ہوا تھے ہم بھی
آسمانوں پہ کوئی خاک نشیں رہتا تھا


میں اسے ڈھونڈتا پھرتا تھا بیابانوں میں
وہ خزانے کی طرح زیر زمیں رہتا تھا


پھر بھی کیوں اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
میں جہاں رہتا تھا وہ بھی تو وہیں رہتا تھا


جانے فاروقؔ وہ کیا شہر تھا جس کے اندر
ایک ڈر تھا کہ مکینوں میں مکیں رہتا تھا