دل کا غم سے غم کا نم سے رابطہ بنتا گیا

دل کا غم سے غم کا نم سے رابطہ بنتا گیا
دھیرے دھیرے بارشوں کا سلسلہ بنتا گیا


درد و غم سہنے کی عادت اس قدر پختہ ہوئی
ہارنا آخر ہمارا مشغلہ بنتا گیا


ایک اک کر کے بہت دکھ ساتھ میرے ہو لیے
مرحلہ در مرحلہ اک قافلہ بنتا گیا


ضبط کا دامن جو چھوٹا ہاتھ سے میرے تو پھر
میرا چہرہ کرب کا اک آئنا بنتا گیا


ہر طرف پھیلا ہوا تھا بے یقینی کا دھواں
خود بخود فاروقؔ پھر اک راستہ بنتا گیا