میرا خیال ان کی تمنا کہیں جسے

میرا خیال ان کی تمنا کہیں جسے
ان کا گمان رنجش بے جا کہیں جسے


میں آرزوئے موت کس امید پر کروں
وہ جانتا ہے رشک مسیحا کہیں جسے


سچ پوچھئے تو نام اسی کا ہے زندگی
ہم اصطلاح عشق میں مرنا کہیں جسے


افتادگی میں دل بھی شریک الم نہیں
دنیا میں آہ کون ہے اپنا کہیں جسے


سر پھوڑنا جنوں میں دلیل کمال ہے
فرزانگیٔ عشق ہے سودا کہیں جسے


دیباچۂ فنا ہے حقیقت میں زندگی
یعنی سکون ہوش ہے مرنا کہیں جسے


میرے خلوص پر بھی ہزاروں شکوک ہیں
طالبؔ یہ ہے نصیب کا لکھا کہیں جسے