مذاق غم سے نکھرے گا شعور کارواں کب تک

مذاق غم سے نکھرے گا شعور کارواں کب تک
اسیر رہبری ڈھونڈیں گے قدموں کے نشاں کب تک


ذرا زخموں پہ دل کے اور تھوڑی سی نمک پاشی
نکھرتا ہی نہیں دیکھیں یہ حسن گلستاں کب تک


خودی کو بیچ کر سجدہ کوئی سجدہ نہیں ہوتا
جبین شوق سے کہہ دو تلاش آستاں کب تک


مرے افکار میں بالیدگی ہے حسن قسمت کب
تیرے ہونٹوں پہ اے شاعر حدیث دلبراں کب تک


نمود صبح سے پہلے سر منزل پہنچنا ہے
دھندلکوں سے یہ گھبراہٹ امیر کارواں کب تک


کفن باندھے ہوئے سر سے شعور زندگی ابھرا
تری نظروں میں ساقی گردش رطل گراں کب تک


زمانہ کروٹیں لیتا ہے تعمیری ارادوں سے
نہ جانے تیری آنکھوں میں رہے خواب گراں کب تک


اسیروں کا تعلق کیا بہار صحن گلشن سے
قفس میں آئے گی جانے بہار جاوداں کب تک


خودی سے کام لے تقدیر شاید کام آ جائے
ہجوم غم میں فائقؔ شورش آہ و فغاں کب تک