موسم گل ہے گھٹا ہے جام ہے

موسم گل ہے گھٹا ہے جام ہے
انتظار ساقیٔ گلفام ہے


ایک ساقی ایک مے اک جام ہے
پھر یہ کیسا فرق خاص و عام ہے


غم تو ہے اس واسطے مجھ کو عزیز
یہ ترا بخشا ہوا انعام ہے


کیا سبب ہے جلوہ گاہ حسن میں
جس کو دیکھو بندۂ بے دام ہے


موت نے آ کر مداوا کر دیا
اب ترے بیمار کو آرام ہے


جان تو خود آ کے پروانوں نے دی
شمع پر بیکار ہی الزام ہے


توڑ ڈالا اس نے پیمان وفا
خواہش دل اب ترا کیا کام ہے


پیش آتا ہے مقدر کا لکھا
گردش دوراں عبث بدنام ہے


حادثوں سے کیسا گھبرانا نصیرؔ
زندگی تو حادثوں کا نام ہے