الٰہی اب کے جو آئے تو یوں بہار آئے
الٰہی اب کے جو آئے تو یوں بہار آئے
کہ اپنے ساتھ لئے بوئے زلف یار آئے
یہ بات کیا ہے جو یوں کھوئے کھوئے رہتے ہو
ضرور تم کہیں جا کر دل اپنا ہار آئے
جب ان کی بزم ہو ہم ہوں اور ان کے جلوے ہوں
وہ دن بھی زیست میں اے کاش ایک بار آئے
ہمارے گھر بھی وہ اک دن ضرور آئیں گے
تمام عمر اس امید پر گزار آئے
یہیں تمام ہوں اپنی بچی کھچی سانسیں
تمنا لے کے یہی ہم ترے دیار آئے
دل و جگر ہوں اگر مبتلائے درد فراق
کسی کو ایسے میں آئے تو کیا قرار آئے
یہ اپنا اپنا مقدر ہے اس کو کیا کیجے
کسی کو گل تو میسر کسی کو خار آئے
وطن کو دے نہ سکے کچھ بھی کھوکھلے نعرے
جب آئے کام تو بس ہم وفا شعار آئے
ہمیشہ جن کے لئے جان دیتا رہتا تھا
تجھے نصیرؔ وہی قبر میں اتار آئے