مایوس اتنے ہو گئے تیرہ شبی سے ہم
مایوس اتنے ہو گئے تیرہ شبی سے ہم
دامن بچائے پھرتے ہیں اب روشنی سے ہم
اے گردش زمانہ ہمیں دھمکیاں نہ دے
ہر وقت کام لیتے ہیں زندہ دلی سے ہم
جو ہیں بلند حوصلہ کہتے نہیں کبھی
تنگ آ گئے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ان کی نگاہ لطف ہے غیروں پہ آج کل
بیٹھے ہوئے ہیں بزم میں اک اجنبی سے ہم
ہر اک سے مانگنے کی تو عادت نہیں ہمیں
کرتے ہیں جب سوال تو بس آپ ہی سے ہم
درد جگر کچھ اور سوا ہو گیا نصیرؔ
باز آئے ایسے لوگوں کی چارہ گری سے ہم