درد کی جب انتہا ہو جائے گی
درد کی جب انتہا ہو جائے گی
انتہا خود ہی دوا ہو جائے گی
رابطہ رکھئے غموں سے خود بہ خود
زندگی غم آشنا ہو جائے گی
کر نہ اے دل شکوۂ جور و جفا
ورنہ توہین وفا ہو جائے گی
بس انہیں آنے تو دو پھر دیکھنا
دل کی دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
چھوڑ دو گے ساتھ اگر تم بھی مرا
زندگی بے آسرا ہو جائے گی
کیا خبر تھی سرخیٔ خون جگر
صورت رنگ حنا ہو جائے گی
حوصلہ رکھئے کبھی آسان بھی
منزل راہ وفا ہو جائے گی
ناز ہستی پر نصیرؔ اتنا نہ کر
اک نہ اک دن یہ فنا ہو جائے گی