لذت الفت سے کوئی آشنا ہوتا نہیں

لذت الفت سے کوئی آشنا ہوتا نہیں
دو دلوں کے بیچ جب تک فاصلہ ہوتا نہیں


مجھ کو اس درجہ نوازا ہے کسی کے عشق نے
منقطع اب رنج و غم کا سلسلہ ہوتا نہیں


بے وفائی سے تری میں خوب واقف ہوں مگر
اپنے دل کو کیا کروں مجھ سے گلہ ہوتا نہیں


بس تبھی تک تیری خوش فہمی کا باقی ہے بھرم
آئنے سے تیرا جب تک سامنا ہوتا نہیں


خواہشیں کر دیتی ہیں مائل برائی کی طرف
ورنہ کوئی آدمی از خود برا ہوتا نہیں


بات تو جب ہے پس توبہ رہے ثابت قدم
صرف توبہ کر کے کوئی پارسا ہوتا نہیں


پوجتا ہے ہر کوئی چڑھتا ہوا سورج نصیرؔ
ڈوبتا سورج کسی کا بھی خدا ہوتا نہیں