موجودگی کا اس کی یہاں اعتراف کر

موجودگی کا اس کی یہاں اعتراف کر
اے کعبۂ جہاں مرے دل کا طواف کر


کب تک فسوں میں موسم یکسانیت رہے
اے رائج الجہان نیا انکشاف کر


اس تلخیٔ حیات کے لمحوں کا ہر قصور
میں نے معاف کر دیا تو بھی معاف کر


پردہ پڑا ہے شہر کی جب آنکھ آنکھ پر
تیرا بھی حق ہے سچ سے مرے اختلاف کر


میں سچ ہوں اور سامنے تیرے کھڑا ہوں میں
کرنا ہے میری ذات سے اب انحراف کر


میں خود پہ اوڑھتا ہوں ترے پیار کی ردا
تو خود پہ میری چاہ کا اجلا غلاف کر


لے ایک ایک شخص مرا ہم زبان ہے
جا ایک ایک شخص کو میرے خلاف کر


تب عکس عکس اجلا نظر آئے گا تجھے
تو آئنۂ دل پہ جمی گرد صاف کر


بن کر شعاع شیشۂ منشور دل پہ پڑ
رنگوں کا اک جہان لیے انعطاف کر


چادر تمازتوں کی لیے دن کے دل میں چل
تنہائیوں کو شب کے جگر میں لحاف کر


اس مہر بند عشق کو تو بھی ہوا لگا
طاہر عدیمؔ تو بھی کوئی اکتشاف کر