مرحلے تو زیست کے طے کر لیے

مرحلے تو زیست کے طے کر لیے
پاؤں لیکن آبلوں سے بھر لیے


گھر سے باہر روشنی تھی منتظر
کیسے کیسے خوش نما منظر لیے


اور کیا دیکھیں کہ وحشت کے سبب
پھول دیکھے ہاتھ میں پتھر لیے


دشت سے گھر لوٹ کے پچھتائے ہم
گھر بھی نکلا دشت کا منظر لیے


سیکھ دنیا سے تکلم کا ہنر
ایک فقرہ سیکڑوں نشتر لیے


اب ذرا تم بھی خدا بن کر دکھاؤ
پتھرو ہم نے تو سجدے کر لیے


نقش ہے خاورؔ اسی کا شاہکار
الٹے سیدھے رنگ جس نے بھر لیے