مرض عشق میں مجھ سا بھی گرفتار نہ ہو

مرض عشق میں مجھ سا بھی گرفتار نہ ہو
دوست تو دوست ہے دشمن کو یہ آزار نہ ہو


ہوش سے کام لو انجام کو دیکھو موسیٰ
طور کی خیر نہیں طالب دیدار نہ ہو


یہ بھی احساں ہے اگر ہاتھ ستم سے کھینچو
نہ کرو مہر و وفا در پئے آزار نہ ہو


فاتحہ قبر پہ آئے ہو تو پڑھتے جاؤ
طبع نازک پہ اگر لطف و کرم بار نہ ہو


دل انصاف طلب گھیر کے لایا ہے جہاں
یا الٰہی یہ کہیں حسن کی سرکار نہ ہو


جرم وہ جرم ہے جو جرم کی حد میں نہ رہے
معصیت کا ہے مزہ جب کہ گنہ گار نہ ہو


لطف جینے کا نہ مرنے کا مزہ ملتا ہے
ہوں مرض لاکھ مگر عشق کا آزار نہ ہو


ہائے جاں بازوں کی محرومیٔ قسمت مسعودؔ
معرکے میں جو کسی ہاتھ میں تلوار نہ ہو