منزل

وہ سوچتا ہے’’ میں اپنی زندگی کا مالک ہوں ۔ جب چاہوں اِ سے مٹاسکتاہوں‘‘ ۔لے....کن.... لیکن وہ کون ہے میرے اندر جو اس عمل کو کرنے سے روکتا ہے.......کیا یہ زندگی سے پیار ہے.......یا بیرونی کوئی دباؤ...... نہیں ... نہیں شاید.......ہماری سرشت میں داخل وہ علم......کہ زندگی تمہاری نہیں.......ایک امانت ہے...... ایک ایسی قوت جو دکھائی نہیں دیتی......یا وہ طاقت کہ جو دکھائی دیتی ہے......عزیزو اقارب کی صورت میں...... ہو سکتا ہے کوئی ایسا جذبہ جو ’’مرنے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہو......مگر مرتا نہ ہو.......ایک نئی زندگی عطا کرتا ہو اور جب وہی نئی زندگی......کسی مایوسی یا حرماں نصیبی کا شکار ہوتی ہے تو پھر موت ہی یاد آتی ہے........بھلے ہی بزدلی کا قدم ہو...... مگر اٹھانے کے لیے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہے.......پھر اس کے خیالات کے تانے بانے منتشر ہو گئے ۔ آخر اس نے اپنی بے ربط ، ٹوٹی پھوٹی سانسوں کے خاتمہ کا فیصلہ کرہی لیا۔ اپنے اس فیصلہ سے اب وہ مطمئن بھی نظرآ رہاتھا۔ اِس اطمینان کے بعد اُس کے قدم تیزی سے بڑھنے لگے ۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ دیر پہلے جو وحشت اور ویرانی تھی وہ ختم ہوچکی تھی ۔ ذہن میں جو انتشار اور بے چینی کی لہریں موجزن تھیں اُن میں ٹھہراؤ آچکاتھا دل پُرسکون اور مطمئن تھا۔ پُل کے قریب آکر وہ ٹھہر گیا۔ ایک پَل کے لیے اُس نے کائنات کی خوبصورت فضاؤں اورپھولوں کی رعنائیوں کا جائزہ لیا لیکن دوسرے ہی پل اُس کے مزاج کی کڑواہٹ نے تصوّر کے حسین احساس کوچکناچور کردیا۔زندہ رہوں..... تو کیوں؟ اورکس کے لیے! کوئی بھی تو ایسا نہیں جو اُس کے دُکھ سکھ کا شریک ہو، اُس کے لیے بے چین وبیقرار ہو، اُس کا ہم نفس وہم نواہو ۔ آخر اِس بے مصرف زندگی کا مقصد ہی کیا ہے۔ اِس وجود کو، دھرتی کے بوجھ کو مٹا دینا ہی بہترہے ۔ کائنات سمٹ کر اُس کی آنکھوں میں سماچکی تھی۔ پُل کے نیچے دُور بہت دُور سورج سمٹتا ہوا خون کے آنسو رو رہا تھا اور پتھروں پر پھیلی ہوئی سرُخی اُس کی نگاہوں میں داخل ہو رہی تھیں۔ وہ چھلانگ لگانے ہی والاتھا کہ کسی کے ہاتھوں نے اُس کادامن تھام لیا۔ اُس نے بے یقینی کے انداز میں دیکھا۔ ایک ننھی سی پریشان حال بچی اُسے ٹکر ٹکرد یکھ رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے سُرخ آنکھوں سے دیکھا۔ لہجہ میں کڑواہٹ تھی۔
وہ گُم صُم کھڑی تھی.......سہمے ہوئے انداز میں بولی ’’بابا، بھوک لگی ہے۔‘‘
لبوں پر لفظ ’’بابا‘‘ کی فریاد نے ایک ہی لمحے میں اسے خود ’’بابا‘‘ کے دو زانو پر بیٹھا دیا تھا......بابا اسے کتنا چاہتے تھے، ہر پل اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
اسی لمحے اس نے بچی کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پلکیں موند لیں۔ ماضی کے کھنڈرات میں ایک کچا مٹی کاگھروندانمودار ہوا جس میں اس کی سانسوں کی خوشبورچی بسی تھی ۔ بابا آم کے باغ کی پاسبانی کیا کرتے تھے اُس میں کٹہل کے بھی کئی درخت لگے ہوئے تھے لیکن اُسے کٹہل سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ بابابھی آم کے درختوں پر ساری توجہ دیتے تھے ۔ فصل کے ختم ہونے پر وہ چاروں طرف کی منڈیربنایا کرتے، باغ کوسجایا سنواراکرتے ، وہ سوچتا۔ بڑا ہوکر بابا کا سہارا بنوں گا ۔ اچھے اچھے باغ لگاؤں گا اور سب کو خوب آم کھلاؤں گا ۔ لیکن اُسے بابا کی ایک بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ اُسے نشہ کی عادت تھی اور پھر نشے کی ترنگ میں وہ اماں کو پیٹتا رہتا ۔ اماں سسکتی رہتی باباسے منتیں کیاکرتی۔ وہ مان جاتا، اچھی اچھی باتیں کرتا۔ مجھ کو چومتا، توبہ کرتا لیکن موقع ملتے ہی وہ پھر اُسی میں غرق ہوجاتا۔ نشے کی لَت کو بابا چھوڑ نہیں سکا۔ آخر ایک دن اُس لعنت نے اسے نگل لیا۔ پھر نہ جانے کیا آفت آئی کہ اماں اُسے شہر لے آئی محنت مزدوری کرتی پراُس سے پڑھنے کو کہتی۔ لیکن پڑھائی میں اُس کادل نہیں لگتا۔ دوستوں کے ساتھ یا پھراکیلے ہی دن دن بھر اسکول کے پاس باغیچے میں گذارتا۔ ندی میں نہانے چلاجاتا۔ آخر اماں نے اُسے موٹر کی دکان پربٹھا دیا۔ وہ اچھا مکینک تو بن گیا لیکن دھیرے دھیرے اُسے بھی بابا کی لت کا چسکا لگ گیا۔ اماں اُس سے پیار سے کہتی ! چھوڑ دے بیٹا اِسے چھوڑ دے۔ اِس نشے نے ہمارا سب کچھ لوٹ لیا۔ تیرے بابا کوہم سے چھین لیا۔ اب تیری زندگی میرے لیے بڑی قیمتی ہے ۔ میری بات مان لے ۔ اماں کو میرا یہی غم کھاگیا۔ دمہ کا اُس پرایسا دورہ پڑا کہ اُس کا دم ہی لے گیا ۔ بے گو روکفن پڑی لاش لعنت وملامت کررہی تھی ۔ وہ اُس کے اکڑے ہوئے جسم کو گھورے جارہاتھا ۔ ایک حرماں نصیب کی لاش جواپنے ارمانوں سمیت دُنیا سے اٹھ گئی تھی ۔ اُس کے خوابوں کے رنگ بکھر گئے تھے ۔ ارمانوں کا محل جووہ اُس کے بل بوتے پر تعمیر کرنا چاہتا تھا اب اُس کے مزار کی شکل میں تبدیل ہونے والاتھا ۔ گھنٹوں بعد جب وہ اُسے منوں مٹی تلے دباکر واپس آیا تو ہرطرف ایک سناٹا ، خلاسامحسوس کیا۔ اجنبیت کے اِس ماحول میں اُسے اپنے آپ سے ، اپنے وجود سے وحشت ہونے لگی.......
’’کیاہوا بابا، آپ کیا سوچ رہے ہیں‘‘ ؟ بچی نے معصومیت سے استفسار کیا۔
’’ کچھ نہیں.... کچھ بھی نہیں ‘‘ چونکتے ہوئے جیسے کسی نے ذہن کے تار جھنجھوڑ دیے ہوں ۔
’’ تمہارا نام کیا ہے‘‘؟
’’ امینہ ‘‘۔
’’امینہ‘‘.......
کیا امینہ کی وجہ سے ارادے میں لغزش آرہی ہے ؟اس نے اپنے آپ سے سوال کیا...... نہیں ...... ایسا نہیں ہوسکتا یا پھر.........نہیں نہیں۔ایسا نہیں ہوسکتا ۔ دوزانو بیٹھے بیٹھے وہ ہانپنے لگا۔ اُس کی سانس پھولنے لگی ۔ جسم پسینے سے بھیگ گیا۔ ریلنگ کے کنارے پتھریلے چبوترے پر تھوڑی دیر کے لیے ٹیک لگاکر اُس نے نیچے نظر دوڑائی۔ سورج اپنی شعاعوں کو سمیٹتا ہواکالے پردے میں داخل ہورہاتھا ۔ اُس نے آسمان کی طرف منہ کرکے لمبے لمبے سانس لیے اور ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا احساس کیا اور یکایک اُٹھ کر تیزی سے چلنے لگا ۔ امینہ بھی اُس کے ہمراہ ہولی ۔ کبھی وہ اس کے آگے، کبھی پیچھے اورکبھی ساتھ ساتھ چلنے لگتی ۔ چلتے چلتے نہ جانے کیوں وہ ٹھٹھک گیا۔ غور سے امینہ کودیکھا ۔ انجانے میں اس کا ہاتھ امینہ کے سر پرچلاگیا ۔ میلے کچیلے بالوں پرانگلیاں پھیرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کررو پڑی ۔شام کا دھواں چاروں طرف پھیل رہا تھا۔چڑیوں کے چہچہانے سے فضا میں ایک خوش آہنگ شور بکھر رہا ہے۔ ہرپرندہ اپنے اپنے مسکن کی جانب رواں دواں تھا ۔ اُس نے امینہ کو گود میں اٹھالیا۔ ننّھے ننّھے ہاتھوں نے اُس کے چہرے کوچھوتے ہوئے اپنی معصومیت کا احساس دلایا۔ اس کے دل ودماغ کا غبار بیٹھتا چلاگیا ۔ فضا میں ٹھہراؤ ساآگیا ۔ مسجد کی میناروں سے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ امینہ کے معصوم لمس اور بھولی بھولی باتوں نے یک لخت اُسے سکون بخش دیا ۔ اُس بے سہارا کو گود میں اٹھانے سے جیسے اُسے خود کو سہارا مل گیا ۔
......پل صراط کی ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد اس نے دائیں جانب نظر اٹھائی.......آم کے باغ میں بور آیا ہوا ہے........ اس نے سوچا اللہ کے کرم سے فصل اچھی.......بہت اچھی ہوگی۔