سیلاب قصر دل سے گزرتا ہوا سا ہے

سیلاب قصر دل سے گزرتا ہوا سا ہے
شیشے کا یہ مکان بکھرتا ہوا سا ہے


ٹھہرے کہاں نگاہ کہ سورج ہے سامنے
آنکھوں میں دھوپ دشت اترتا ہوا سا ہے


کچھ بھی ملا نہیں ہے سمندر میں ڈوب کر
لیکن جزیرہ کوئی ابھرتا ہوا سا ہے


دھندلا رہے ہیں نقش حوادث کی مار سے
منظر تمہاری یاد کا مرتا ہوا سا ہے


گھر میں اداسیوں کا ہے میلہ لگا ہوا
موسم غموں کا اپنے نکھرتا ہوا سا ہے


لیکن مجھے یہ شام جگائے گی رات بھر
دن کا ہر ایک زخم تو بھرتا ہوا سا ہے