وہ میرے ساتھ سفر میں تو چلنے والا ہے
وہ میرے ساتھ سفر میں تو چلنے والا ہے
کہیں وہ چپکے سے رستہ بدلنے والا ہے
برس بھی جائے وہ بادل تو کس کو پردا ہے
لہو تو آنکھ سے پھر بھی نکلنے والا ہے
میں اس کے خواب سے آگے بھی اس کو لے جاؤں
مگر وہ بات کو اپنی بدلنے والا ہے
جدھر بھی جاؤں میں رستے پکار اٹھتے ہیں
عذاب رات کا ہرگز نہ ٹلنے والا ہے
چلو پہاڑ کے اس پار چل کے دیکھیں گے
ہمارے نام دفینہ نکلنے والا ہے
وفا کے نام پہ میں نے جو چوٹ کھائی ہے
ترا مزاج بھی شاید بدلنے والا ہے