مرے خیال میں شکلیں بدل کے آتی ہیں
مرے خیال میں شکلیں بدل کے آتی ہیں
اسی خرابے سے پریاں نکل کے آتی ہیں
مرے زوال میں نیندوں کا کچھ تو حصہ ہے
مری تلاش میں راتیں بھی چل کے آتی ہیں
مرے بدن میں لہو چیختا ہے راتوں کو
ہوائیں آتی ہیں لیکن سنبھل کے آتی ہیں
خوشی کہاں کی ہے عارفؔ غموں کا قصہ ہے
رفاقتیں بھی تو خوابوں میں ڈھل کے آتی ہیں