مجموعۂ خیال پریشاں کیے ہوئے

مجموعۂ خیال پریشاں کیے ہوئے
بیٹھا ہوں پھر جنوں کو میں مہماں کیے ہوئے


میں لکھ رہا ہوں شرح حیات الم نصیب
قطرات خون دل سر عنواں کیے ہوئے


دیتا ہوں پھر خیال کو میں دعوت جنوں
ذروں کو اپنے دل کے بیاباں کیے ہوئے


وحشت بہ قید عشق نہیں مدتیں ہوئیں
پھرتا ہوں یوں ہی چاک گریباں کیے ہوئے


اے آفتاب حشر ذرا اک نظر ادھر
لایا ہوں دل کے داغ نمایاں کیے ہوئے


اللہ کا شکر ہے کہ کھڑا ہے کوئی قریب
مشکل کو وقت نزع کی آساں کیے ہوئے


کیوں اہل حشر کوئی بھی کچھ پوچھتا نہیں
پھرتے ہیں تر لہو میں وہ داماں کیے ہوئے