میں تجھ پہ کر نہیں سکتا نثار اور چراغ

میں تجھ پہ کر نہیں سکتا نثار اور چراغ
ہوائے لمس کے جھونکے نہ مار اور چراغ


اٹھا کے طاق سے اک روز پھینک دے گا کوئی
مرا وجود ترا انتظار اور چراغ


سفر کو یاد رہے گا ہمارا رخت سفر
یہ سرخ آبلے گرد و غبار اور چراغ


تو جان لینا کہ پھر امتحان دوستی ہے
اگر بجھایا گیا ایک بار اور چراغ


تری جدائی میں اک دوسرے کو تکتے ہیں
تمام رات رخ اشک بار اور چراغ


وجود وقت پہ تزئین شب کے زیور ہیں
ہماری نیند حسیں خواب زار اور چراغ


قدیم وقتوں سے اک دوسرے کے یار ہیں یہ
کبھی بچھڑ نہیں سکتے مزار اور چراغ


سماں بناتے ہیں شب کا سفید چہروں پر
سیاہ رنگ کے گہرے حصار اور چراغ


نوید صبح کے امکاں میں چل بسے دونوں
شب شکست کا گریہ گزار اور چراغ


شب سکوت میں شیرانؔ محو رقص ہیں سب
دھواں اندھیرا ہوائے خمار اور چراغ