میں پہلے برف سا تھوڑا پگھل کے دیکھوں گا
میں پہلے برف سا تھوڑا پگھل کے دیکھوں گا
اگر وہ آگ ہے تو اس میں جل کے دیکھوں گا
پتہ مجھے بھی ہے منزل نہیں ملے گی اب
پر ایک بار تو رستہ بدل کے دیکھوں گا
ابھی تو ہوش ہے گرنا ہے کیا سنبھلنا کیا
قدم بہکنے لگیں پھر سنبھل کے دیکھوں گا
کہے ہیں لوگ اسے انتظار ہے میرا
گلی سے اس کی کسی دن نکل کے دیکھوں گا
سنا ہے میرے نہ رہنے کا غم اسے بھی ہے
کسی بہانے سے اس سے میں مل کے دیکھوں گا