میں نے کچھ اشعار جوں ہی آئنے پر دم کیے
میں نے کچھ اشعار جوں ہی آئنے پر دم کیے
عکس تیرا لا دکھایا اس نے سر کو خم کیے
کی سماعت کی تواضع اس مدھر آواز سے
رزق بینائی اسی پیکر کے زیر و بم کیے
مہر ہونٹوں سے لگائی اس زمین حسن پر
اپنے قبضے اس زمیں پر اور مستحکم کیے
جان ڈالی تذکرۂ یار سے الفاظ میں
سیدھے سادے شعر اس کے ذکر سے مبہم کیے
رات گزری مخملی ہاتھوں کے تکیے پر مری
شکر ہے مولا میسر تو نے یہ ریشم کیے
صبح وصل اس کی چہک سے گونج اٹھے بام و در
بولتی تھی پہلے جو آواز کو مدھم کیے
بہہ رہا تھا لمس کا دریا گذشتہ شب قمرؔ
خوب ہم نے بھی مسام جسم اس سے نم کیے