عاقل ہے با شعور ہے کافی ذہین بھی

عاقل ہے با شعور ہے کافی ذہین بھی
اس پر ہے مستزاد وہ از حد حسین بھی


بوسہ کسی بھی پھول کا ہم نے نہیں لیا
رخسار منتظر رہے لب بھی جبین بھی


گھر لے لیا ہے عین ترے گھر کے سامنے
اور اک خرید لایا ہوں میں دوربین بھی


سب کام ہو رہے ہیں عجیب اس قدر عجیب
لکھنے سے پہلے سوچتے ہیں کاتبین بھی


اک شوخ و شنگ طفل چھپا ہے درون دل
سنجیدہ لگ رہا ہوں بظاہر متین بھی


آنکھوں میں جس کی رحم ہو ہاتھوں میں روٹیاں
وہ شخص مفلسوں کا دھرم بھی ہے دین بھی


انسانیت کے جسم پہ چند ایسے داغ ہیں
جن پر ہے شرمسار فلک اور زمین بھی


ہنستے ہوئے مرے گا کوئی دل گزیدہ شخص
آئے گا اس ڈرامے کے اندر وہ سین بھی


اشعار گر سفر نہ کریں دل سے دل تلک
دیتے نہیں ہیں داد قمرؔ سامعین بھی