میں کیا تھا اور اب کیا ہو گیا ہوں
میں کیا تھا اور اب کیا ہو گیا ہوں
محبت کرکے تنہا ہو گیا ہوں
مسلسل چشم تر رہتی ہے میری
میں یادوں کا خزانہ ہو گیا ہوں
میری ان چشم میں دیکھو ذرا سا
تری منزل کا رستہ ہو گیا ہوں
مجھے تو سننے دے جھوٹی تسلی
بہا کے آنسو دریا ہو گیا ہوں
یہ دریا میٹھے پانی کا نہیں ہے
میں درد و غم سے کھارا ہو گیا ہوں
میرے زخموں پہ مرہم مت لگاؤ
میں زخموں کا سہارا ہو گیا ہوں
شبوں میں چیختا رہتا ہے کاتبؔ
تیرے جانے سے صحرا ہو گیا ہوں