آنکھوں میں تری چاہت کا ایسا نشہ دیکھا

آنکھوں میں تری چاہت کا ایسا نشہ دیکھا
میخانے میں جیسے میں نے جام بھرا دیکھا


وہ لب تھے ترے یا وہ تھے مے سے بھرے پیالے
پیتے ہی اسے ساری دنیا کا نشہ دیکھا


چہرے پہ ترے بکھری زلفوں کی گھٹا ایسی
ساون میں قمر کے اوپر ابر گھرا دیکھا


اوروں کے لیے جو بھی ہو عشق کی تقدیریں
پر میں نے تو اس کے ذریعہ اپنا خدا دیکھا


اک خواب جو ہم دونوں نے ساتھ میں دیکھا تھا
جب آنکھ کھلی تو میں نے خود کو جدا دیکھا


اس ہجر میں تنہائی سے وصل کیا میں نے
اس میں کوئی میں نے درد و غم کا مزہ دیکھا


یہ زخم پرانے ہیں لیکن یہ بھرے کیسے
اپنوں کے سبب سے ہر پل زخم ہرا دیکھا


موت ایک تماشا ہے کردار بنیں گے سب
دنیا میں خدا کا بس یہ ایک وفا دیکھا


تفتیش میں کاتبؔ نے یہ زیست گزاری پر
ہر ایک قدم پر خود کا شوق نیا دیکھا