جام لب پینے کی حسرت اب تو میرے دل میں ہے
جام لب پینے کی حسرت اب تو میرے دل میں ہے
پر مرا ساقی تو یاروں غیر کی محفل میں ہے
قتل کر دے جو نظر سے وو ہنر سب میں کہاں
یہ ہنر تو بس پری وش دل نشیں قاتل میں ہے
ہے نزاکت ہے نظافت ہر ادا میں اس کے تو
اس لئے ہی اب تلک زندہ وہ میرے دل میں ہے
عشق کی دریا میں غوطے کھا رہا ہوں میں تو اب
وہ لہر ہے اب تو منزل میری یاں ساحل میں ہے
ہو گیا ہوں میں پریشاں دل کہیں لگتا نہیں
عشق کرنے کی خطا سے دل میرا مشکل میں ہے
جو خوشی اپنی لٹا دے غیر کے ہی واسطے
اس جہاں میں اس طرح کی آرزو عادل میں ہے
کون تیرا ہے یہاں پہ یہ ذرا معلوم کر
رنگ میں چہرے سنے ہیں راز مستقبل میں ہے
تھک گیا ہوں زندگی کے اس سفر میں میں تو اب
موت مل جائے سفر میں بس یہی منزل میں ہے
سن لیے جو شعر کاتبؔ کے بنا اک داد کے
یہ گواہی دے رہا تو محفل جاہل میں ہے