میں کچھ بھی کہہ نہ پایا

تانگے کا ایک گھوڑا
لنگڑا تھا تھوڑا تھوڑا
پوچھا جو میں نے اس سے
کیا پاؤں میں ہے پھوڑا
بولا یہ ظلم مجھ پر
اک آدمی نے توڑا
پہلے تو اس نے مجھ کو
تانگے میں لا کے جوڑا
پھر اس کو خوب بھر کر
بولا کہ چل منوڑا
جب میں کھسک نہ پایا
لہرایا اس نے کوڑا
مارا مجھے تڑاتڑ
پھر دم کو بھی مروڑا
میں بلبلا کے بھاگا
بس بن گیا بھگوڑا
خود بھی گرا پھسل کر
ایک اک کا سر بھی پھوڑا
اس دن سے آج تک میں
لنگڑا ہوں تھوڑا تھوڑا
یہ داستاں سنا کر
بولا وہ ہنہنا کر
میں نے تو منو بھائی
طبیعت ہے سادہ پائی
خود اپنے منہ سے اپنی
کرتا نہیں بڑائی
قرآن پاک نے بھی
میری قسم ہے کھائی
گر تیسواں سپارہ
تم نے پڑھا ہو بھائی
والعادیات ضبحاً میں
بات ہے یہ آئی
انساں تو اپنے رب سے
کرتا ہے بے وفائی
بس مال و زر کے پیچھے
ہے زندگی گنوائی
گھوڑوں نے مالکوں پر
ہے جان بھی لٹائی
ہم لوگ ہنستے گاتے
ہر بوجھ ہیں اٹھاتے
ہیں جانور ہمیشہ
انساں کے کام آتے
ماحول کی کشش بھی
ہم لوگ ہیں بڑھاتے
دل کش پرند پیارے
شاخوں پہ چہچہاتے
سارے نمازیوں کو
ہر صبح ہیں جگاتے
پھر خود بھی اپنے رب کی
حمد و ثنا ہیں گاتے
سو سو طرح تمہارا
ہم دل بھی ہیں لبھاتے
کچھ ایسے ہیں کہ جن سے
تم ہو دوا بناتے
کچھ اون تم کو دے کر
سردی سے ہیں بچاتے
کچھ دودھ تم کو دیتے
کچھ گوشت ہیں کھلاتے
گر جانور نہ ہوتے
تم گھی کدھر سے لاتے
مکھن پنیر انڈے
آخر کہاں سے کھاتے
بس کیا کہوں کہ کیا کیا
ہیں فائدے اٹھاتے
پھر بھی ہیں لوگ ہم کو
ہر طرح سے ستاتے
یہ بات کہتے کہتے
دکھڑا یہ سب سناتے
ایسا وہ بلبلایا
میں کچھ بھی کہہ نہ پایا