کائیں کائیں کوا ٹیں ٹیں مٹھو

ایک ٹہنی پہ بیٹھے تھے مٹھو میاں
آ گیا ایک کوا بھی اڑ کر وہاں
آئیے آئیے شوق فرمائیے
میٹھا امرود ہے آپ بھی کھائیے
بولا کوا کہ خاموش ٹیں ٹیں نہ کر
ورنہ میں پھوڑ دوں گا ابھی تیرا سر
بے وقوفوں سے میں بات کرتا نہیں
اپنے درجے سے نیچے اترتا نہیں
کون سا تو عقاب اور شاہین ہے
منہ لگانا تجھے میری توہین ہے
بولیں کوے نے جب ایسی بڑ بولیاں
تو غصے میں بولے یہ مٹھو میاں
تو نے کیا تیر مارے ہیں میں بھی سنوں
تیری چالاکیوں پر ذرا سر دھنوں
بولا کوا کہ او رٹو طوطے یہ سن
میری دانش کا ہر شخص گاتا ہے گن
کر دوں روشن ابھی تیرے چودہ طبق
یاد ہے بچے بچے کو میرا سبق
ایک دن جب بہت سخت پیاسا تھا میں
یہ سمجھ لے کہ بس ادھ مرا سا تھا میں
ایک مٹکے میں پانی کی دیکھی جھلک
چونچ ڈالی تو پہنچی نہ پانی تلک
ذہن نے کام کرنا شروع کر دیا
مٹکا کنکر سے بھرنا شروع کر دیا
ان کی تعداد مٹکے میں جب بڑھ گئی
سطح پانی کی اوپر تلک چڑھ گئی
میں نے پانی گٹاگٹ گٹاگٹ پیا
پھر پھدکتے ہوئے کائیں کائیں کیا
دیکھ لے کس قدر تیز طرار ہوں
کتنا چالاک ہوں کتنا ہشیار ہوں
بولے مٹھو میاں مار کر قہقہہ
بے وقوفی کی بس ہو گئی انتہا
جانے مٹکے میں پانی تھا کب سے پڑا
پھر ڈھکنا بھی نہیں تھا کھلا تھا گھڑا
گندے کنکر بھی بھرتا گیا اس میں تو
پی گیا ایسے پانی کو پھر آخ تھو
ایسے پانی سے لگتی ہیں بیماریاں
پیش آتی ہیں کتنی ہی دشواریاں
خود کو کہتا عقل مند و دانا ہے تو
لیکن افسوس احمق کا نانا ہے تو
تو اگر گندی چیزیں نہ کھائے پیے
لوگ پالیں تجھے تو مزے سے جیے
صاف ہوتا تو گھر گھر بلاتے تجھے
اس طرح مار کر کیوں بھگاتے تجھے
کوا سنتے ہی یہ بات رونے لگا
اپنے پر آنسوؤں سے بھگونے لگا
اور کہنے لگا بات سچ ہے تری
لوگ کرتے ہیں نفرت شکل سے مری
کوا رو رو کے جب آہ بھرنے لگا
اس پہ مٹھو نے یہ ترس کھا کر کہا
چھوڑ دے اس تکبر بڑائی کو تو
اپنی عادت بنا لے صفائی کی تو
گندا پانی نہ پی گندی چیزیں نہ کھا
ان میں ہوتا ہے ڈیرا جراثیم کا
یہ جراثیم بیمار کر دیتے ہیں
اچھے خاصوں کو بیکار کر دیتے ہیں
یوں بظاہر تھا کوا بہت کائیاں
اس کو سمجھا کے ہر بات مٹھو میاں
اڑ گئے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے
مٹھو بیٹے کے نعرے لگاتے ہوئے