میں تھا کہتا رہا پر سنی نہ گئی

میں تھا کہتا رہا پر سنی نہ گئی
جھوٹی کوئی کہانی بنی نہ گئی


بھیگ کر کانپتا تھا بدن یہ میرا
دھوپ تھی سامنے پر چنی نہ گئی


کام اک یہ ادھورا میرا رہ گیا
رنج سے روح پوری بھری نہ گئی


دھوپ تھی تیز اتنی کی سب جل گیا
بھیگتی آنکھ سے پر نمی نہ گئی


رات بھر داستاں جو سناتا رہا
کاغذوں پر کہانی لکھی نہ گئی


جانے کیا سوچ کر لب یہ ہنستے رہے
درد سے تھے بھرے پر ہنسی نہ گئی


کیا لکھا تھا ان آنکھوں میں راہیؔ بتا
کیا زباں تھی جو تجھ سے پڑھی نہ گئی