خود کو خود سے ابھی ملانا ہے
خود کو خود سے ابھی ملانا ہے
میں ہوں زندہ مجھے بتانا ہے
اور الجھاؤ نہ مجھے اب تم
راستے مجھ کو گھر بھی جانا ہے
وہ گھروندا تو بہہ گیا کب کا
دشت ہی اب مرا ٹھکانا ہے
نام مٹتا نہیں ترا دل سے
اب بتا کیسے یہ مٹانا ہے
راکھ کرنا ہے یاد کو تیری
بن کے دریا اسے بہانا ہے
روٹھ کر بیٹھے ہیں گلی کوچے
آج ان کو مجھے منانا ہے
سانس بھری ہے لگ رہی راہیؔ
سنگ اس پر سے بھی ہٹانا ہے