بجھی ان آنکھوں میں خواب کیوں ہے

بجھی ان آنکھوں میں خواب کیوں ہے
نہیں ہے قصہ تو باب کیوں ہے


نہیں خبر اس کے آنے کی جب
مہک رہا یہ گلاب کیوں ہے


جسے بھی دیکھو وہ پی رہا ہے
اگر بری ہے شراب کیوں ہے


چھپا تھا جو کچھ ہے اب وہ ظاہر
تو رخ پہ تیرے نقاب کیوں ہے


ہے سامنے تیرے جب حقیقت
نگاہ میں پھر سراب کیوں ہے