میں جو چاہوں بھی تو ایسا نہیں ہونے دے گی
میں جو چاہوں بھی تو ایسا نہیں ہونے دے گی
تو مجھے اور کسی کا نہیں ہونے دے گی
تری آواز جگائے گی سماعت میں فسوں
تیری صورت مجھے اندھا نہیں ہونے دے گی
باپ کوئی بھی مصیبت نہیں آنے دے گا
ماں مرے دل میں اندھیرا نہیں ہونے دے گی
روز آ جاتا ہے مجھ کو کوئی میسج اس کا
یعنی وہ غم کا ازالہ نہیں ہونے دے گی
اک طوائف جو جلاتی ہے بدن سے چولہا
اپنی بیٹی کو عفیفہ نہیں ہونے دے گی
تو مری مان کسی اور سے شادی کر لے
میری غربت تو یہ رشتہ نہیں ہونے دے گی
وہ جدا ہو بھی اگر ہوگی سلیقے سے علیؔ
یعنی دھوکے کو تماشا نہیں ہونے دے گی