آنکھ کے گوشے ہو کر نم آباد ہوئے
آنکھ کے گوشے ہو کر نم آباد ہوئے
دل کی بستی کے سب غم آباد ہوئے
جیسے اک دریا چومے صحراؤں کو
تیرے لمس پہ ایسے ہم آباد ہوئے
کس نے چھو کر ہم کو ہوش دلایا ہے
کس کے چھونے سے پھر ہم آباد ہوئے
دیواریں دروازے اور ہم دیوانے
سن کر پائل کی چھم چھم آباد ہوئے
دل نے تیرا نام لیا سرشاری میں
سانسوں کے ویران ردھم آباد ہوئے