کم سے کم عارضی نہیں ہوگی
کم سے کم عارضی نہیں ہوگی
موت اتنی بری نہیں ہوگی
اتنی چھوٹی ہے کائنات مجھے
کھل کے آوارگی نہیں ہوگی
دین میں جبر کو روا رکھنا
مذہبی خود کشی نہیں ہوگی
سب پہ تنقیص کر رہا ہے وہ
اس سے اب شاعری نہیں ہوگی
حفظ کر لوں گا میں بدن اس کا
جیب میں ڈایری نہیں ہوگی
سب تمنائیں پوری کرنی ہیں
تو بتا کون سی نہیں ہوگی
سب کو سب کچھ ملے گا جنت میں
بس وہاں زندگی نہیں ہوگی
اب جو چمکے گی دیکھ کر اس کو
بھوک وہ جسم کی نہیں ہوگی
وقت مٹھی میں ہوگا تب ترے پاس
ہاتھ پر جب گھڑی نہیں ہوگی
کہہ دیا ناں وہ میرا ماضی تھا
اس پہ اب بات بھی نہیں ہوگی
جھیل کی داستان ختم ہوئی
چاند ہوگا پری نہیں ہوگی