کبھی سورج ہے کبھی زہرہ جمالوں جیسا
کبھی سورج ہے کبھی زہرہ جمالوں جیسا
کیوں وہ لگتا ہے مجھے میری مثالوں جیسا
ہر طرح سے وہ بہت اچھا ہے لیکن اس کو
دیکھنا چاہتی ہوں اپنے خیالوں جیسا
چاہتی ہوں کہ کروں اس سے محبت کھل کر
لیکن انجام نہ ہو چاہنے والوں جیسا
کس طرح مان لوں میں اس کی نصابی باتیں
اس کا موقف ہے کتابوں کے حوالوں جیسا
میری ضد ہے اسے حل کر کے رہوں گی میں بھی
وہ جو لگتا ہے ریاضی کے سوالوں جیسا
آج کے دن بھی گھٹا کھل کے نہ برسے شاید
آج کا دن بھی ہے وحشت میں غزالوں جیسا
اے محبت میں مجھے چاند سا کہنے والے
مجھ قمرؔ کو نہ سمجھ میری مثالوں جیسا