غبار اڑتا ہوا دل کے خاکدان میں ہے

غبار اڑتا ہوا دل کے خاکدان میں ہے
کسی کی یاد کا ملبہ پڑا مکان میں ہے


مجال کب ہے سمندر کی راستہ روکے
ہمارے عزم کا طوفان بادبان میں ہے


کہو نہ ڈھونڈیں خرد والے آشیانے میں
مرے جنوں کا پرندہ ابھی اڑان میں ہے


نہیں پگھلتے اگر سنگ تیری باتوں سے
کوئی تو نقص یقیناً تری زبان میں ہے


بہا کے لے گیا سیلاب فصل خوابوں کی
کسان بیٹھا ہوا نیند کے مچان میں ہے


بھٹک رہا ہے کہاں دھوپ کے جزیرے میں
تری جگہ مری پلکوں کے سائبان میں ہے


سبھی جواب مرے بن گئے سوال اشہرؔ
یہ زندگی بھی مری کیسے امتحان میں ہے