میں فیضیاب گردش ساغر نہیں ہوا

میں فیضیاب گردش ساغر نہیں ہوا
کیوں اے نگاہ دوست یہ کیوں کر نہیں ہوا


ہر اشک خوں میں گوہر یکتا کی آب ہو
وہ عشق کیا جو حسن کا زیور نہیں ہوا


کیونکر لٹائی دل کی یہ میں نے محبتیں
کچھ غم نہیں جو کوئی شناور نہیں ہوا


بازی ہمیشہ دل ہی محبت میں لے گیا
اک معرکہ بھی تم سے کوئی سر نہیں ہوا


اک گردش مدام نے گھیرے رکھا مجھے
اک لمحۂ سکوں بھی میسر نہیں ہوا


کیفیت حیات سے واقف نہیں ہے وہ
جس کو نیاز عشق میسر نہیں ہوا


یہ راز اپنی مست نگاہوں سے پوچھ لو
کیوں دل رہین منت ساغر نہیں ہوا


فطرت ہی خود ازل سے ہے سرگفتۂ وفا
اے خضر کوئی عشق کا رہبر نہیں ہوا


فائقؔ تمام رات خراب فغاں رہا
لیکن اثر ذرا بھی کسی پر نہیں ہوا