میں بالعموم جو ہونٹوں کو بند رکھتی ہوں
میں بالعموم جو ہونٹوں کو بند رکھتی ہوں
مخالفت میں بھی اپنی پسند رکھتی ہوں
میں جانتی ہوں کہ مجھ سے نہ بن پڑے گا کچھ
یہی بہت ہے دل درد مند رکھتی ہوں
یہ کم نہیں کہ جلوس جہاں میں رہ کر بھی
کسی کی یاد کا پرچم بلند رکھتی ہوں
ترے اصول محبت سے مجھ کو شکوہ ہے
مگر میں خود کو ترا کار بند رکھتی ہوں
اگر یہ آندھیاں چلتی ہیں میرے سر میں قمرؔ
تو کیوں میں گھر کے دریچوں کو بند رکھتی ہوں